اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری تنازع میں، صورتحال نے نہایت شدت اختیار کی ہے۔ خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے نہ صرف فوجی انسٹالیشنوں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ شہری بنیادی بنیادوں، مثلاً ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ نسار ہسپتال کی حملہ آوری کی حالت نقل کرتی ہے، جو اسرائیلی ہدایات کو ماننے کی کوشش کی گئی، میڈیکل اسٹاف کو اخراج کرنے کی۔
پروفیسر محمد المصری، دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز کے میڈیا اسٹڈیز کے ماہر، فلسطینیوں کی زندگی کے ساتھ واقعیت کی روشنی میں تھوکتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے اعمال کو ایک نظامی کینپین کا حصہ بتایا ہے جو چار اور آدھ ماہ سے طویل عرصے سے جاری ہے، تاکہ فلسطینیوں کی زندگی ناممکن بنائی جائے۔ اس عملیہ میں ہسپتالوں کا نشانہ بنانا شامل ہے، جو انسانی حقوق کی گروہوں کے ذریعہ تصدیق کیا گیا ہے اور بین الاقوامی عدلیہ کے عملہ نے اسے قبول کیا ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، خاص طور پر روٹینی طور پر مددگار ملکوں سے، اسرائیل امن کے لیے کرنے کی طلبات پر کوئی اشارہ نہیں دیتا۔ راہنما کونٹرول کرنے والے امریکہ کے انصافی حمایت سے، امن کی صورتحال مذکور ہوتی رہتی ہے۔ جب تک امریکہ اسرائیل کے ساتھ ایکجہتی سے قائم رہتا ہے، جنگی اعمال کے خاتمے کے امکانات تاریک رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ، انٹرنیشنل عدلیہ کے فیصلے کے باوجود اسرائیلی فوجی کارروائی میں بڑھتی ہوئی گستاخی کو اظہار دیا گیا ہے۔ ہسپتالوں، شہری بنیادی بنیادوں، اور میڈیا کو نشانہ بنانے کا مسلسل جاری رہنا اسرائیل کی بے حرمتی کی نمایاں مثال ہے۔
نتنیاہو انتظام کے حامیوں کی دعویٔوں کے باوجود، افسری اقدامات کی حقیقت کے سامنے خالی ہیں۔ غزہ موزوں علاقہ بن چکا ہے، جہاں کوئی محفوظ مقام نہیں ہے، جیسا کہ ماضی میں اسرائیلی بمباریوں سے ظاہر ہوا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے واقعی امنیت کیلئے واقعت کا واحد انتخاب غزہ سے باہر نکلنا ہے، لیکن مدد کے راستوں کو بھ
ی گھیرا گیا ہے۔
اس کشمیری حالت میں، فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ خون ریزی کو روکا جائے اور غیر مسلح شہریوں کی دکھ بھری زندگی کو آرام دیا جائے۔ بین الاقوامی برادری کو اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کا پاسدار بننے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو احترام دینے کیلئے دباؤ ڈالنے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہائی موزوں شرائط میں، انصاف اور امن کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان آوازوں کو سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے، تاکہ اس بے معنی تشدد کے چکر میں مزید معاشرتی زندگیاں بے فضول طور پر ضائع نہیں ہوں۔